Ideal Public School Kapuri
Monday, November 20, 2017
Monday, January 16, 2017
ايثارکے موضوع پر ایک رسالے کا تعارف
مدينے کی مچهلى
Download this booklet on this link
https://www.dawateislami. net/bookslibrary/831
پس منظر :
میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "کیمائے سعادت "کے مطالعے میں مصروف تھا ،ورق پلٹنے لگا ،تو ایسا محسوس ہوا ،کہ کتاب میں کوئی چیز ہے ،میں نے آرام سےکتاب کے اس مقام کو نکالا،جہاں کوئی چیز محسوس ہو رہی تھی ،تو دیکھا کہ وہاں ایک چھوٹی سی کتاب ہے ،اس کتاب کے سب سے اوپر "مدینے کی مچھلی "لکھا ہوا تھا ،اور جس جگہ مصنف کا نام لکھا ہوتا ہے وہا ں لکھا تھا ،"مولانامحمد الیاس عطار قادری رضوی "۔میں نےا س کتاب کو کھول کر دیکھا ،تو اس کے بہت سے اوراق کناروں سے بوسیدہ ہو چکے تھے ،میں نے اس کتاب پرتیزی سے ایک نظر گزارنا شروع کی ،میں اس وقت صرف کتاب میں دیے گئے کتب کے حوالے دیکھ رہا تھا ،اس سولہ صفحات کے رسالے میں درج ذیل کتب کے حوالے دیے گئے تھے ،کیمائے سعادت ،تفسیر خازن ،تفسیر مدارک ،صحیح بخاری ،صحیح مسلم ،تفسیر نعیمی ،تفسیر بیضاوی ،مشکوۃ المصابیح ،تفسیر خزائن العرفان ،سنن ترمذی ،تفسیر روح البیان ۔(اگرچہ مصنف نے ہر کتاب سے براہ راست استفادہ نہیں کیا )اور دلچسپ بات یہ کہ اس رسالے میں پہلی اور آخری بات جو لکھی گئی تھی ،وہ "کیمائے سعادت "ہی سے لی گئی تھی ۔
میں نے کیمائے سعادت کو بند کیا ،اور اس رسالے کو پڑھنا شروع کر دیا ،تھوڈی ہی دیر میں اس رسالے کو مکمل پڑھ لیا ،یہ رسالہ بہت اچھا تھا ،اس رسالے میں کیا کیا تھا ،میں ابھی آپ کو بھی بتادیتا ہوں ۔
رسالے کا تعارف:
اس رسالے میں سب سے پہلے عربی زبان میں دو لائنیں لکھی ہیں ،جس میں اللہ کی تعریف کی گئی ہے ،رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجا گیا ہے ،اور پھر شیطان مردود سے پناہ مانگی گئی ہے ،اور پھر اللہ کے نام سے اس رسالے کو شروع کیا گیا ہے ۔
تبصرہ :
یہ کتاب شروع کر نے کا بہترین طریقہ ہے
رسالے کی ابتداء میں ایک جملہ :
اسکے بعد ایک ایسا جملہ لکھا گیا ہے ،جس سے کتاب پڑھنے والا ہوشیار ہو جاتا ہے ،اور اس کے ذہن میں یہ بات آجاتی ہے ،کہ شیطان مجھے اس نیک کام سے روکے گا ،وہ جملہ یہ ہے :
"شیطان لاکھ سُستی دلائے ،یہ رسالہ آپ آخر تک ضرور پڑھ لیجیے ،ان شاء اللہ دنیا و آخرت کے بے شمار منافع حاصل ہونگے "۔
مدینے کی مچھلی کا واقعہ :
اس کے بعد ایک واقعہ ہے ،غالبا اسی وجہ سے اس رسالے کا نام "مدینے کی مچھلی "رکھا گیا ہے،وہ واقعہ یہ ہے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیمار تھے ،ان کو بُھنی ہوئی مچھلی کھانے کی خواہش ہوئی ،ان کے خادم حضرت نافع نے بڑی کوشش کر کے مدینہ منورہ سے ایک مچھلی ڈیڑھ درھم میں خریدی ،اور اسے تَل کر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا ،اتنے میں ایک سائل (یعنی مانگنے والا ) آگیا ،آپ نے فرمایا :نافع !یہ مچھلی سائل کو دے دو،حضرت نافع نے عرض کیا :آپ ایسا کریں یہ مچھلی تناول فرما لیں ،میں مچھلی کی قیمت سائل کو دے دیتا ہوں ،لیکن آپ نے فرمایا :نہیں ،تم یہ مچھلی ہی ان کو دے دو، چنانچہ وہ مچھلی سائل کو دے دی گئی ،لیکن حضرت نافع نےسائل کے پیچھے جا کر اس سے یہ مچھلی خرید لی ،اور آپ کی خدمت میں پیش کر دی ،لیکن آپ نے فرمایا :یہ مچھلی بھی اسی کو واپس دے آئو ،اور قیمت بھی اسی کے پاس رہنے دو،کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے :
حدیث :
جب کسی کو ایک چیز کھانے کی خواہش ہو ،اور وہ اُ س کو اللہ کی رضا کیلئے نہ کھائے ،تو اللہ اسے بخش دیتا ہے (کیمائے سعادت )
اس واقعے کو لکھنے کے بعد مصنف صاحب نے یوں نصحیت کی :
دیکھا آپ نےہمارے صحابہ کرام (علیھم الرضوان )اپنے اندر کس قدر ایثار کا جذبہ رکھتے تھے ،اپنی پسندیدہ چیز راہِ خدا میں دے دینا ،واقعی بہت بڑے اجر و ثواب کا کام ہے :
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
" لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ"
تم ہر گز بھلائی کو نہ پہنچو گے ،جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو۔
(آل عمران :92)
مفتی نعیم الدین مراد آبادی تفیسر خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں
حسن رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے :
جو مال مسلمان کو محبوب ہو ،اور اسے رضا الہی کیلئے خرچ کرے ،وہ اس آیت میں داخل ہے ،خواہ ایک کھجور ہی ہو
(تفسیر خازن )
حضرت عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہ شکر کی بوریاں خرید کر صدقہ کرتے تھے ،ان سے کہا گیا ، اس کی قیمت ہی کیوں نہیں صدقہ کر دیتے ،فرمایا :شکر مجھے محبوب و مرغوب ہے ،میں یہ چاہتا ہوں ،کہ راہ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ کروں
(تفسیر مدارک )
اس کے بعد مصنف نے بخاری مسلم میں درج ایک واقعہ بیان کیا ہے
حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ :
حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں بڑے مالدار تھے ،انہیں اپنے مال میں سے باغ بہت پیارا تھا ،جب یہ آیت نازل ہوئی ،تو انھوں نے رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا :میں اس باغ کو راہ خدا میں صدقہ کرتا ہوں ،رسول اللہ ﷺ نے اظہار مسرت فرمایا :حضرت ابو طلحہ نے وہ باغ رسول اللہ ﷺ کے اشارے پر اپنے اقارب اور چچا کے خاندا ن میں بانٹ دیا ۔
(بخاری ،مسلم)
اس کے بعد تفسیر نعیمی کے حوالے سے ایک واقعہ درج ہے
حضرت زید بن حارثہ کا واقعہ :
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اس آیت مبارکہ کے نزول پر اپنا نفیس گھوڑا دربار مصطفی ﷺ میں لائے ،اور عرض کیا :یہ اللہ کیلئے صدقہ ہے ،رسول اللہ ﷺ نے یہ گھوڑا ان ہی کے فرزند اسامہ بن زید کو عطا فرمادیا ،حضرت زید نے عرض کیا ،یارسول اللہ ﷺ! میری نیت صدقہ کی تھی ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :رب نے تمہارا صدقہ قبول فرمالیا ہے ۔
(تفسیر بیضاوی ،تفسیر خازن )
اس کے بعد حضرت عمر کا ایک واقعہ ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسی اشعری کو لکھا کہ میر ے لیے ایک کنیز خرید کر بھیجو ،انہوں نے بھیج دی ،وہ آپ کو بہت پسند آئی ،آپ نے یہی آیت "لن تنالو ا البر" پڑھ کر اسے اللہ کی راہ میں آزاد فرمادیا
(تفسیر خازن )
اس واقعے کو ذکر کرنے کے بعد مصنف یوں نصحیت آموز کلمات لکھتے ہیں :
کاش ہمارے اندر بھی یہ جذبہ پیدا ہو جائے ،کہ ہم بھی اپنی پیاری چیزیں راہ خدا میں لُٹا دیا کریں ۔
افسوس !
ہماری ایسی سوچ کہا ں !
ہم تو اچھی اور عمدہ اشیا کو جان کی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں ،اور اگر راہ خدا میں دینا بھی ہو ا،یا کسی کو تحفہ دینا پڑا ،تو ردی قسم کی چیزیں ہی دیتے ہیں ،کتنی حیرت کی بات ہے ،جس اللہ نے ہمیں نعمتیں عطا فرمائی ہیں ،اُسی کی عطا کردہ نعمتیں اسی کی راہ میں دینے کیلئے ہم تیار نہیں ہوتے ،خواہ چوری ہو جائے ،سڑ جائے ،ادھر ادھر گم ہو جائے پرواہ نہیں ،آہ ! نہیں دیتے تو راہ خدا میں نہیں دیتے ،اپنی پیاری چیز راہ خدا میں دینے کا ایک اور ایمان افروز واقعہ پڑھیے :
حضرت ابو ذر غفاری کا نرالہ جذبہ :
ایک دن کسی نے حضرت ابوذر غفاری سے عرض کیا ،حضور ! یہاں ندی کنارے کچھ غریب لوگ آباد ہیں ،ہو سکے تو انکی کوئی امداد فرما دیں ،آپ نےفرمایا :ایک اونٹ لے آئیے ،پھر فرمایا :ندی کنارے جتنے گھر آباد ہیں ،سب کی گنتی کر جائے اور میرے گھر کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے ،پھر اونٹ کو نحر (نحر اونٹ کو ذبح کرنے کا سنت طریقہ ہے )کرکے سب کے گھروں میں برابر برابر گو شت پہنچایا جائے ،میرے گھر میں بھی دوسروں کے مقابلے میں ایک بوٹی زائد نہ جائے ،حکم کی تعمیل کردی گئی ۔
بعد فراغت آپ نے خادم کو طلب کرکے کہا ،کیا میں نے تمھیں ساتھ رکھنے سے پہلے ،تم سے یہ وعدہ نہیں لیا تھا کہ "جب میں اپنے مال میں سے کوئی چیز راہ خدا میں دینے کا کہوں تو سب سے بہترین شی دینی ہوگی "
آپ نے خادم کو یہ بات اس لیے کہی تھی ،کیونکہ وہ اس مقصد کیلئے سب سے بہترین اونٹ نہیں لایا تھا ،بلکہ اس سے کم والے کو لایا تھا ۔
اس واقعے کے بعد پھر مصنف نصیحت آموز کلمات کو ذکر کرتے ہیں :
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
بندہ کہتا ہے ،میرا مال ،میرا مال ،حالانکہ اسے تو اسکے مال سے تین ہی طرح کا فائدہ ہے
1۔جو کھا کر فنا کر دیا
2۔جو پہن کر پرانا کر دیا
3۔جو صدقہ وخیرات کر کے آخرت کے لیے جمع کر لیا
اس کے علاوہ جو مال ہے ،یہ دوسروں کیلئے چھوڑ جائے گا
مشکوۃ میں ہے :
حدیث :
تم میں سے کون ایسا شخص ہے ،جس کو اپنےوارث کا مال اپنے مال سے اچھا لگے ؟صحابہ کرام نے عرض کیا ،یا رسول اللہ ! ایساکون ہو سکتا ہے ،جسے اپنا مال سے زیادہ دوسرے کا مال عزیز ہو ،اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا :
اپنا مال تو وہی ہے ،جو راہ خد ا میں خرچ کر کے آگے بھیج دیا جائے ۔
اس کے بعد ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے ،جس پر مصنف نے نرالی مہمان نوازی کا عنوان قائم کیا ہے
نرالی مہمان نوازی :
تفسیر خزائن العرفان میں ہے :
ایک بھوکا شخص رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ،رسول اللہ ﷺ نے تمام امہات المومنین کے گھروں میں معلوم کروایا ،کہ کوئی کھانے کی چیز مل جائے ،مگر کسی کے یہاں کوئی کھانے کی چیز نہیں تھی ،
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا :جو شخص اس کو مہمان بنائے ،اللہ تعالی اس پر رحمت فرمائے
حضرت ابو طلحہ انصاری کھڑے ہو گئے ،اور مہمان کو اپنے گھر لے گئے ،گھر جاکر گھر والی سے دریافت کیا ،گھر میں کچھ کھانا ہے ؟
گھر والی نےکہا :صرف بچوں کے لیے تھوڑا سا ہے
حضرت ابو طلحہ انصاری نے کہا :بچوں کو کسی طرح سُلاد و،اور جب مہمان کھانے بیٹھے تو چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھو اور چراغ بجھا دو،تاکہ مہمان اچھی طرح کھا لے ،یہ تجویز اس لئے کی تھی ،تاکہ مہمان یہ جان نہ سکے ،کہ اہل خانہ اس کے ساتھ نہیں کھا رہے۔
اس طرح مہمان کو کھانا کھلا دیا گیا ،اورآپ نے اور اہل خانہ نے بھوکے رہ کر رات گزار دی ،جب صبح ہوئی ،اور بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے ،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :رات کے فلاں فلاں کے گھر میں عجیب معاملہ پیش آیا ،اللہ ان لوگوں سے بہت راضی ہے ۔
اور سورہ حشر کی یہ آیت نازل ہوئی :
وَيُؤْثِرُونَ عَلی أَنْفُسھمْ وَلَوْ كَانَ بھمْ خَصَاصَۃ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسہ فَأُولَئِكَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں ،اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو ،اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے ۔
(الحشر ،آیت 9)
ہمارے ارادہ تو تھا ،کہ اس رسالے کا مکمل تعارف کروا دیا جائے ،لیکن ابھی خیال آیا ہے کہ کیونکہ چند صفحات کے متعلق کچھ بھی نہ بتائو ،تاکہ یہ رسالے دیکھنے کی خواہش باقی رہے ،ایک بات یادرکھیے گا ،اس تعارف میں ہم نے رسالے کے اصل الفاظ نہیں لکھے ،بلکہ اختصار کے ساتھ اپنے الفاظ و انداز میں اس کا تعارف پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔
بہت ہی اچھی بات :
ہمیں اس رسالے میں ایک بات بہت ہی اچھی لگی ہے ،ہم مصنف کے اپنے الفاظ کے ستھ ہی اسے آپ کے سامنے نقل کرتے ہیں ،مصنف نے اس پر یہ عنوان قائم کیا :
مفت میں ایثار کا ثواب لوٹنے کے نُسخے :
کاش ہم بھی ایثار کرنا سیکھیں
اگر خرچ کرنے کو جی نہیں چاہتا ،تو بغیر خر چ کے بھی کئی مواقع ایثار کے مل سکتے ہیں ۔
مثلا کہیں دعوت پر پہنچے ،سب کیلئے کھانا لگایا گیا تو ہم عمدہ بوٹیاں وغیرہ اس نیت سے نہ اٹھائیں کہ ہمارا دوسرا بھائی اس کو کھالے ۔
گرمی ہے کمرے میں کئی اسلامی بھائی سونا چاہتے ہیں ،خود پنکھے کے نیچے قبضہ جمانے کے بجائے ،دوسرے اسلامی بھائیوں کوموقع دیکر ایثار کا ثواب کما سکتے ہیں ۔
اسی طرح بس میں دوسرے اسلامی بھائی کو باصرار نشست پر بٹھا کر اور خود کھڑے رہ کر ،کار میں سفر کا موقع میسرہونے کے باوجود دوسرے اسلامی بھائیوں کیلئے قربانی دے کر خود پیدل یا بس وغیرہ میں سفر کر کے ،اجتماع وغیرہ میں آرام دہ جگہ مل جائے ،تو دوسرے اسلامی بھائی پر جگہ کشادہ کر کے یا اسے وہ جگہ پیش کر کے ،کھانا کم ہو اور کھانےو الے زیادہ ،تو خود کم کھا کر یا بالکل نہ کھا کر نیز اسی طرح بیشمار مواقع پر مفت میں ایثار کا ثواب کمایا جاسکتا ہے ۔
(اس کے آخر میں مصنف کے دستخط بھی ہیں ،جن کے نیچے تاریخ 11 صفر
،ھجری1418 لکھی ہے )
Saturday, October 15, 2016
Sunday, December 27, 2015
Subscribe to:
Posts (Atom)